کچھ یادیں , کچھ باتیں , اور بھت کچھ خاص ہے اسمیں
گزر جاتے ہیں میرے مسکرانے سے پہلے
Saturday, November 24, 2012
Monday, November 5, 2012
Friday, January 20, 2012
بڑا آدمی
بڑا آدمی
میں جب بچہ تھا تو یہ گمان کرتا کہ بڑا آدمی وہ ہے جس کا قد لمبا ہو۔ چنانچہ میں پنجوں کے بل کھڑا ہونے کی کوشش کرتا تو کبھی کسی اونچی جگہ پر کھڑا ہو جاتا تاکہ خود کو بڑا ثابت کرسکوں۔ جب کچھ شعور میں ارتقاء ہوا تو علم ہوا کہ بڑا آدمی وہ نہیں جس کا قد لمبا ہو بلکہ وہہے جس کی عمر زیادہ ہو۔ چنانچہ میں جلد از جلد عمر میں اضافے کی تمنا کرنے لگا تاکہ بڑا بن سکوں۔
جب زندگی نوجوانی کی عمر میں داخل...... ہوا تو پتا چلا کہ بڑے آدمی کا تعلق عمر سے نہیں دولت سے ہوتا ہے ۔ جس کے پاس اچھا بنک بیلنس، لیٹسٹ ماڈل کی کاریں ، عالیشان مکان اور آگے پیچھے پھرتے نوکر چاکر ہوں تو اصل بڑا آدمی تو وہی ہوتا ہے۔
جب میں نے یہ دولت اور آسائشیں حاصل کر لیں تو محسوس ہوا کہ میں ابھی تک بڑا آدمی نہیں بن پایا۔ اندر کےچھوٹے پن کی ایک خلش سی محسوس ہونےلگی۔یہ خلش اتنی بڑھی کہ راتوں کو اچانک آنکھ کھل جاتی اور یہ سوال ہتھوڑے کی طرح دماغ پر اثر انداز ہوتا۔ چنانچہ میں دوبارہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا کہ ” بڑا آدمی ”کون ہے؟
میں صوفیوں کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ بڑا آدمی وہ ہے جو خود کو نفس کی خواہشات سے پاک کرلے،
جوگیوں نے کہا کہ دنیا چھوڑ دو ، یہ دنیا تمہارے پیچھے چلنے لگے گی اور یوں تم بڑے آدمی بن جاؤگے۔
دنیا داروں نے مادی سازو سامان میں اضافے کا مشورہ دیا۔
فلسفیوں نے علم میں اضافے کے ذریعے لوگوں پر دھاک بٹھانے کے لئے کہا۔ لیکن ان میں سے کسی جواب سے تشفی نہ ہوئی کیونکہ ہر جواب انسانوں کا بنایا ہوا تھا۔
پھر خیال ہوا کہ یہ بات کیوں نہ اسی سے پوچھ لی جائے جو سب سے بڑا ہے۔ چنانچہ خدا سے لو لگائی اور اس کی کتاب اٹھالی۔ قرآن کو دیکھا تو علم ہوا کہ خدا کے نزدیک “بڑا آدمی” وہ ہے جو خدا کا تقوٰی اختیار کرلے، خود کو اپنے خالق کے سامنے ڈال دے، اپنی ہر خواہش کو اس کے حکم کے تابع کرلے، اپنا جینا ، مرنا خدا سے وابستہ کرے، اپنی جسم کی ہر جنبش پر رب کا حکم جاری کردے، اپنے کلام کے ہر لفظ کو اسکے رعب کے تابع کرلے، اپنے دل کی ہر دھڑکن اسکے یاد کے معمور کرلے۔سب سے بڑھ کر بڑا آدمی وہ ہے دنیا میں خدا کے مقابل چھوٹا بننے پر آمادہ ہوجائے ۔ اگر یہ سب ہوجائے تو خدا اس شخص کو اتنا بڑا کردیتا ہے کہ وہ پہاڑوں کی بلندیوں سے بلند ہوجاتا ہے۔
کیا آپ بھی بڑا آدمی بننا چاہتے ہیں؟
Tuesday, May 24, 2011
Meer Taqi Meer
Mohabbat kya hai
محبت كيا دل كا درد سے مامور ہو جانا
متاع جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا
قدم ہیں راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا
یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا
بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہوجانا
نظر سے دور ره کر بھی تقی وہ مایوس ہے میرے
کی میری عاشقی کو نہیں ہے مجبور ہو جانا
Mohabbat kya hai
محبت كيا دل كا درد سے مامور ہو جانا
متاع جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا
قدم ہیں راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا
یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا
بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہوجانا
نظر سے دور ره کر بھی تقی وہ مایوس ہے میرے
کی میری عاشقی کو نہیں ہے مجبور ہو جانا
Thursday, March 17, 2011
فکر امروز
فکر امروز
نہ دنیا کی کوئی صبح نئی ہے ،نہ کوئی شام ،نہ تارے نے ہیں نہ چاند نیا ہے،نہ سورج نیا ہے نہ دریا نہ پہاڑ نہ آبشار نہ لالازار.مگر پھر بھی ہر صبح میں ایک نئی طلعت ،ہر شام میں ایک نئی نزہت ہر رات میں ایک نئی بھپن ہے .غرض کی ہر چھپ کر طلوع و نمودار ہونے والی چیز میں ایک نیا پن موجود ہے.اسی طرح سے موجودات عالم واقعات و کیفیت کے اعتبار سے اپنا رنگ و اثر اور اپنے ماحول کا عالم بدلتے رہتے ہیں .پھر یہ کیونکر ممکن ہے کی لاتعداد اشعار کہے جانے کے بعد بھی کوئی نیا شعر دماغ سے پیدا نہ ہو .یا اسمیں کوئی ندرت محسوس نہ کی جائے؟
نہ دنیا کی کوئی صبح نئی ہے ،نہ کوئی شام ،نہ تارے نے ہیں نہ چاند نیا ہے،نہ سورج نیا ہے نہ دریا نہ پہاڑ نہ آبشار نہ لالازار.مگر پھر بھی ہر صبح میں ایک نئی طلعت ،ہر شام میں ایک نئی نزہت ہر رات میں ایک نئی بھپن ہے .غرض کی ہر چھپ کر طلوع و نمودار ہونے والی چیز میں ایک نیا پن موجود ہے.اسی طرح سے موجودات عالم واقعات و کیفیت کے اعتبار سے اپنا رنگ و اثر اور اپنے ماحول کا عالم بدلتے رہتے ہیں .پھر یہ کیونکر ممکن ہے کی لاتعداد اشعار کہے جانے کے بعد بھی کوئی نیا شعر دماغ سے پیدا نہ ہو .یا اسمیں کوئی ندرت محسوس نہ کی جائے؟
Saturday, January 22, 2011
ILM -علم
علم ایک ایسا سمندر ہے جس کے متعلق کوئی یہ تو کہ ہی نہیں سکتا کی اس نے پورا سمندر کھنگال ڈالا ہے
. مطالعہ کتنا گہرا کیوں نہ ہو یہ دعوه تو ہم کر ہی نہیں سکتے کی ہم نے سب کچھ پڑھ لیا ہے.علم زیادہ ہو مطالعہ گہرا ہو، تو ہم میں ایک انکسار آنا چاہیے تکبّر نہیں قدم قدم پر اپنے علم اور مطالعے کی گہرائی کا اظھاربھی کوئی مستحسنچیز نہیں ہے
سمجھنا تو اور بھی غلط بلکہ قابلمذمّت بات ہے عالم اور دانش ور کو منکرلمزاج ہونا چاہیے .اپنے علم اور مطالعے کی بنا پر دوسروں کو کمزور اور حقیر
Thursday, December 16, 2010
Subscribe to:
Posts (Atom)